Pages

Tuesday, August 15, 2006

Allao Urdu Novel By M.Mubin Part 4


٭چوتھا باب
دوسرےدن آنکھ جلد کھل گئی تو وہ صرف مدھو کی کشش تھی ۔جس کی وجہ سےآنکھ جلد کھل گئی ورنہ رات بھر وہ ٹھیک سےسونہیں پایا تھا۔ رات کےپہلےحصہ میں آنکھ لگی لیکن بھیانک خوابوں اور خیالوں نےاس کس نیند کا سلسلہ منقطع کردیا۔اس نےخواب میںدیکھا سارا گاو
¿ں جل رہا ہے۔ ہزاروں افراد پر مشتمل ایک ٹولی ہے۔ جو اشتعال انگیز نعرےلگاتا ہوا آگےبڑھ رہا ہی۔ اس کےہاتھوں میں ہتھیار ہی۔ ٹولہ گھروں کو آگ لگاتا ہی۔ اپنےہاتھوں کی ترشولوں سےمکانوں کےمکینوں کےجسموں کو چھیدتا ہےاور دہکتی ہوئی آگ میں جھونک دیتا ہی۔ بچوں کو نیزوں پر اچھالتا ہی۔ حاملہ عورتوں کی پیٹ کو چاک کرکےان سےنو زائد بچےنکال کرآگ میں جھونک دیتا ہی۔ اس ٹولےنےآکر اس کی دوکان گھیر لی ۔ٹولےایک چہرہ باہر آیا ۔یہ اس کےپڑوسی کا تھا جس کی اسپیر پارٹس کی دوکان تھی۔ جلاڈالو ....جلاڈالو....وہ ہاتھ اٹھا کر چیخا ۔اور ٹولہ خوفناک دل کو دہلانےدینےوالےنعرےلگتا اس کی دوکان کی طرف بڑھا۔ اور اس کی آنکھ کھلی گئی تھی ۔اور اس کےباوجود لاکھ کوشش کےوہ ٹھیک طرح سےسونہیں سکا ۔سوتےجاگنےکی کیفیت میں رات گذر گئی ۔ سویرےایسا لگا کہ اب گہری نیند آجائےگی لیکن مدھو کےتصور نےاسےسونےنہیں دیا۔ وہ برش کرتا گیلری میں آکر کھڑا ہوا ۔پو پھوٹ چکی تھی۔ اور دھیرےدھیرےچاروں طرف اجالا پھیل رہا تھا۔وہ بس اسٹاپ کو گھورنےلگا۔ اسےگاو
¿ں آئی سڑک پر ایک سایہ سا رینگتا ہوا دکھائی دیا اور اسکی دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔دھیرےدھیرےاس سائےکےرنگین خدوخال واقع ہونےلگی۔ وہ مدھو ہی تھی۔ ہاتھوں میں کتابوں کو دبائےوہ بس اسٹاپ کی طرف بڑھ رہی تھی۔بس اسٹاپ پر پہنچنےسےقبل لاشعوری طور پر اس نےاس کی گیلری پر نظرڈالی۔ گیلری میں اسےکھڑا دیکھ کر وہ ٹھٹکی پھر اس نےہونٹوں پ ایک دلکش مسکراہٹ رینگ گئی۔ اسےلگا جیسےوہ مسکراہٹ اس کےدل کےتاروں کو چھیڑکر اس کےوجود میں دلکش ترنگیں پیدا کررہی ہی۔ مدھو کا اسےدیکھ کرمسکرانا اس بات کی گواہی تھ کہ مدھو کےدل میں اس کےلیےکوئی لطیف گوشہ ہی۔ اگر مدھو کےدل میں کوئی جذبہ نہیں ہوتا تو اسےدیکھ کر اس کےچہرےپر کوئی تاثر نہیں ابھرتا ۔اس کےمدھو کو ہاتھ بتایا۔مدھو کےچہرےپر شرم کےتاثرات ابھرےاو راس نےبھی ہاتھ ہلاکر اس کےہاتھ ہلانےکا جواب دیا۔ مدھو کےجواب کو پاکر اس کی ہمت بڑھی ۔اس نےمدھو کی طرف فلائنگ کس اچھال دیا۔ جواب میں مدھو نےبھی اس کی جانب فلائنگ اچھالنا چاہا لیکن اس کےہاتھ ہونٹوں پر چپک سےگئےاور شرما کےاس نےاپنا سر جھکا لیا۔ وہ گیلری پر اپنی کوہنی رکھ کر مدھو کو دیکھنےلگا۔ مدھو بھی اشےشرمیلی نگاہوں سےمسلسل تاکےجارہی تھی۔ یہ سلسلہ اس وقت ٹوٹا جب بس آگئی ۔ مدھو نےہاتھ اٹھاکر اسےگڈ بائےکہا۔ اور بس میں جاکر بیٹھ گئی۔ بس چلی گئی تو وہ اندر آیا ۔اسےکوئی تیاری نہیں تھی۔ وہ سب تیاری کرچکا تھا ۔مدھو کا انتظار کرنےکےلیےو ہ پہلےسےتیار ہوجاتا تھا۔اس کےایک دوست نےکہاتھا ۔”بغیر تیار ہوئےسردارجی دنیا کا سب سےگندہ آدمی محسوس ہوتا ہی۔ اتنا گندہ کےافریقہ کےکسی قبیلےکی عورت بھی اس پرنظرڈالنا پسند نہیں کرےگی ۔ “اسےوہ بات یاد تھی۔ اس لیےوہ اپنےکھلےبال لنگی اور بنیان میں مدھو کےسامنےجاکر اس کا تصور توڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیےمدھوکےآنےسےقبل ہی وہ اپنےسرکےبال سنوار کر اس پر قرینےسےپگڑی باندھ لیتا تھا ۔اور اچھا سا ڈریس تن زیب کرلیتا تھا۔ تاکہ وہ کسی ”دلیر مہدی “ سےکم دکھائی نہ دی۔ خوش لباسی کےمعاملہ میں دلیر مہدےاس کا آئیڈ یل تھا۔وہ دلیر مہدی کو سب سےزیادہ خوش لباس سکھ مانتا تھا۔ جو اپنی خوش لباس کےوجہ سےہر کسی پر اثر چھوڑکر تھوڑی سی نقل کرنےکی کوشش کرتا تھا۔دن بڑےاطمینان سےگذرا ۔معمول کےمطابق دھندہ چلتا رہا ۔گاہک آتےجاتےرہی۔ لوگ اپنےاپنےکاموں میں لگےرہی۔ کا کےواقعات کا کسی پراثر نہیں تھا۔ شام کےوقت اس نےرگھو کےحوالےدوکان کرکےچوک کی طرف کارخ کیا۔ وہ جاوید کےسائبر کی طرف چل دیا۔ سائبر میں حسب معمول بھیڑ تھی ۔کئی گاہک انتظار کررہےتھی۔ ان میں کئی لڑکیا ںبھی تھیں۔ ٦١ سے٢٢ سال کی عمر لڑکیا۔ لڑکےبھی تقریباً اسی عمر کےتھی۔ ”آئیےسردارجی ....خیریت ؟“جاوید نےاسےدیکھ کر پوچھا۔ ”دیکھنےآیا ہوں کل کےمعاملےکا کیا اثر ہوا ہی۔“”اثر تو کچھ بھی نہیں پڑاہی۔ سب کچھ معمول کےمطابق چل رہا ہےایسا لگ رہا ہےجیسےکچھ ہوا ہی ہیں ۔جاوید کہتا اسےاپنےآفس میں لےگیا۔ “اس نےاپنےلیےانسٹی ٹیوٹ میں ایک چھوٹاسا آفس بنا رکھا تھا۔ ”تمہاری سائبر میں لڑکیاں تو بہت آتی ہیں جاوید بھائی ۔“اس نےپوچھا ۔”لڑکیاں نہیںنوجوان لڑکیاں کہیےسردارجی ۔ “جاوید نےمسکراکر کہا ۔دراصل یہ چیز اس عمر کےلوگوں کےہیں۔چاہےوہ لڑکےہو یا لڑکیاں ۔لڑکےزیادہ تر چیٹنگ کےلیےآتےہیں۔ یاپھر ’نیوڈ سائٹ ‘دیکھنےکےلیے۔لڑکیاں چیٹنگ کےلیےآتی ہی۔ ان میں زیادہ تر لڑکیوں کا نظر یہ ہوتا ہےچیٹنگ کےذریعےوہ غیر ممالک میں آباد گجراتی لڑکوں سےدوستی کریں۔ اور معاملہ آگےبڑھا کر شادی تک پہنچادےتاکہ ان کےماں باپ کےسر سےان کی شادی کا تلوار کی طرح لٹکا نہ رہےاور وہ ان کےلیےاچھا لڑکا ڈھونڈنےکےلیےپریشان نہ رہی۔ میرےسائبر کی وجہ سےکئی لڑکیوں کی شادیاں غیر ممالک میں ہوچکی ہیںاور کئی لڑکیوں کی شادیاں غیر ممالک میں طےہوچکی ہیں۔ ”وہ کامیاب رہی یاناکام ؟“”اب یہ تو ان کا مسئلہ ہی۔ لوگوں کو بھی محسوس ہوگیا ہےکہ سائبر کےذریعےلڑکیاں جلد اچھا جیون ساتھی ڈھونڈ کر سارےمعاملات طےکرکےان کےذہن سےایک بوجھ دور کردیتی ہیں اس لیےوہ انھیں سائبر جانےسےروکتےنہیں ۔رات کے٢١ بجےتک یہاں لڑکیوں کی بھیڑ ہوتی ہیں۔ ٥١ کمپیوٹر لگا چکا ہوں پھر بھی کبھی کوئی کمپیوٹر خالی نہیں ہوتا ہی۔ اب بھی ٥١ کمپیوٹرس کی ضرورت ہی۔“جاوید بولا ۔اچانک اس کا دل دھڑک اٹھا ۔اس کےمدھو کو سائبر میں داخل ہوتےدیکھا ۔یہ؟ اس نےجاوید کی طرف سوالیہ نظروں سےدیکھا ۔”مدھو نےاندرون بھائی پٹیل کی لڑکی ہی۔ “جاوید نےجواب دیا۔ ”یہ بھی سائبر میں باقاعدگی سےآتی ہی۔ اس کی بھابھی سےچیٹنگ وغیر ہ کرتی ہی۔ “جاوید کی بات سن کر اس نےاطمینان کی سانس لیا۔ ”جاوید بھائی کوئی کمپیوٹر خالی نہیں ہی۔ “مدھو جاوید کےآفس میں چلی آئی۔”تھوڑا انتظار کرنا پڑےگا ۔“جاوید نےمسکراکر جواب دیا۔”کہاں انتظار کروں بیٹھنےکی بھی جگہ نہیں ؟“ مدھو اٹھلا کر بولی ۔”اگر اعتراض نہیں ہو تو میرا آفس حاضر ہی۔“ کہتےمسکراکر جاوید نےایک کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ مدھو مسکراکر بیٹھ گئی ۔اس کا دل دھڑک اٹھا ۔”ان سےملو سردار جسمیندر سنگھ عرف جمی۔ “جاوید نےاس کی طرف اشارہ کرتےہوئےمدھو سےکہا۔ ”ہاں میں انھیں جانتی ہوں ۔“ مدھو نےمسکراکر جواب دیا ۔”جانتی ہوں؟“جاوید نےحیرت سےدونوں کی طرف دیکھتےہوئے۔”وہ بس اسٹاپ کےسامنےان کی دوکان ہےنا گرونانک اسپیر پارٹس۔“مدھو نےجواب دیا۔ ”اچھا اچھا ،اور تم وہاں سےروزانہ آتی جاتی ہو۔ “جاوید نےکہا۔ ”جمی یہ مدھو ہےمیری کلاس میٹ ۔میں شاید کل اس کےبارےمیں تمہیں بتا چکا ہوں ۔“جاوید بولا ۔”ہاں انھیں تو روز ہی دیکھتا ہوں ۔“ وہ شرمیلےلہجےمیں بولا ۔اتنےمیں جاوید کو کسی لڑکےنےآواز دی ۔کسی کمپیوٹر میں کوئی پرابلم آیا تھا۔ ”میں ابھی آیا “ کہہ کرجاوید اٹھ کر آفس سےچلا گیا۔ اب وہ دونوں آفس میں اکیلےتھی۔ کبھی ایک دوسرےکی طرف دیکھتےدونوں کی نظریں ملتیں تو مسکرادیتےیا پھر گھبراکر دوسری طرف دیکھنےلگتی۔ ”آپ روز کالج جاتی ہیں؟“مدھو سےبات کرنےکےلیےاس نےپوچھا ۔”کالج تو روز ہی جانا پڑتا ہے۔“مدھو نےمسکراکر جواب دیا۔ مدھو کا جواب سن کر وہ جھینپ گیا۔”کالج جاتےہوئےکبھی میرےغریب خانےپر بھی آجایا کیجیی۔سویرےآپ بس اسٹاپ پر کھڑی ہوکر بس کا انتظار کرتی ہیں اچھا نہیں لگتا ۔اگر میرےغریب خانےپر آئیں تو میں آپ کو ناشتہ یا چائےتو دےسکتا ہوں۔ “ وہ بولا ۔”آپ کےگھر میں کون کون ہیں؟“مدھو نےپوچھا۔ ”جی کوئی نہیں میں ہی اکیلا ہوں “”او“مدھو نےاپنےہونٹ سکوڑی۔”آپ کھانا کیا کھاتےہیں؟“”میں....میں خود کھانا بناتا ہوں۔“”آپ کو کھانا بنانا آتا ہی۔“مدھو کا چہرہ چمکنےلگا۔”حالات انسان کو یہ رنگ میں ڈھال دیتےہیں۔ “”آپ کو آلو کےپراٹھےبنانےآتےہیں۔ “”ہاں بناسکتا ہوں“”مجھےپنجابی آلو کےپراٹھےبہت پسند ہی۔“”تو پھر کل غریب خانےپر آئیےآپ کےلیےآلو کےپراٹھےتیار ہوںگے۔“اس نےکہا۔ اس درمیان جاوید اندر آیا ۔”مدھو، چار نمبر کمپیوٹر خالی ہورہا ہےتم وہاں پر بیٹھ سکتی ہو۔“”شکریہ “کہہ کر مدھو اٹھ کر چلی گئی۔ مدھو کےجاتےہی اس کا چہرہ اتر گیا۔ ”کیا بات ہےسردارجی “جاوید نےچھیڑتےہوئےکہا۔”میرا جلد آنا اچھا نہیں لگا ۔“ اس نےکوئی جواب دیا۔ ”اچھا سمجھ گیا دل کا معاملہ ہے....“کہتےہوئےوہ اسےچھیڑنےلگا۔آفس کےکانچ سےباہر وہ کمپیوٹر پر بیٹھی مدھو کو دیکھ رہا تھا ۔مدھو ماو
¿س اور کی بورڈ سےکھیلنےمیں مصروف تھی۔ کبھی وہ سر اٹھا کر اسےدیکھ لیتی ۔دونوں کی نظریں ملتیں تو وہ مسکرادیتی ۔اس کی مسکراہٹ سےاس کےاندر جیسےجلترنگ سی بجنےلگتی۔ ایک فون آیا تو جاوید فون پربات کرنےلگا۔ ”میں ابھی آیا “کہہ کروہ اٹھا اور مدھو کےپاس جاکر کھڑا ہوگیا۔ مدھو کچھ ٹائپ کررہی تھی۔ اس طرح کسی کےکمپیوٹر کےپاس جاکر کھڑا ہوجانا ،اس کی تنہائی میں رخنہ ڈالنا سائبر کیفےکےآداب کےخلاف تھا۔ لیکن مدھو نےکوئی اعتراض نہیں کیا۔ ”میرےبھائی کا ای میل آیاہی۔ اس کےای میل کا جواب دےرہی ہوں۔میرا بھائی امریکہ میں ہےمیری بھابھی بھی امریکہ میں ہی۔ اکثر یا تو ہماری فون پر باتیں ہوجاتی ہیں یا پھر ای میل سے۔ کبھی کبھی چیٹنگ کےذریعےبھی ہم ایک دوسرےسےباتیں کرتےہیں۔ “ مدھو اسےبتانےلگی۔یہ کیا گورکھ دھندہ ہےاسکےسمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ لیکن اس وقت اسےشدت سےاحساس ہونےلگا اسےبھی یہ سیکھنا چاہیی۔کم سےکم وہ اس طرح مدھو کےسامنےاپنا کمپیوٹر شناسا ہونےکا اظہارتو کرسکتا ہی۔ اس وقت کیفےمیں ایک نوجوان داخل ہوا۔ وہ سائبر کیفےمیں ایک ایک لڑکی پر نظر ڈالتا سیدھا مدھو کےپاس آیا ۔اس نےاسےنا پسندیدہ نظروں سےاسےدیکھا اور اسےبازو ہٹا کر مدھو کےپاس کھڑا ہوگیا اور اس سےگجراتی میں میں کچھ کہنےلگا۔ مدھو بھی اس کا جواب گجراتی میں دینےلگی۔ مدھو کےچہرےپر آئےناگواری کےتاثرات اس بات کا اظہار کررہےتھےکہ اسےاس نوجوان کا اس طرح آکر اس سےباتیں کرنا پسند نہیں آیا ہی۔ دونوں کبھی کبھی اونچےلہجےمیں باتیں کرنےلگتے۔ سائبر میں بیٹھےدوسرےلوگ چونک کر انھیں گھورنےلگتےان کےاس انداز سےاس نےاندازہ لگایا جیسےوہ کسی بات پر بحث کررہےہیں یا جھگڑرہےہیں۔ تھوڑی دیر بعد جاویداٹھ کروہاں آیا اور وہ بھی گفتگو یا جھگڑےمیں شامل ہوگیا۔ دونوں میں بحث ہوتی رہی پھر وہ نوجوان چلا گیا۔ تو جاوید نےاسےاپنےپیچھےآنےکا اشارہ کیا۔ ”کو ن تھا یہ ؟“جاوید کےآفس میں پہنچ کر اس نےپوچھا۔ ”مہندرراوجی پٹیل “ جاوید نےجواب دیا۔ ایک بڑےباپ کا بگڑا ہوا بیٹا ہی۔ سیاسی لیڈر ہی۔ غنڈہ اور بدمعاش بھی ہے۔کہہ کر وہ رک گیا ۔اور سب سےبڑی بات یہ ہےکہ مدھو پر عاشق ہی۔ یہ سن کر اس کےدل کو ایک دھکا سا لگا۔ ”اور دوسری بات یہ ہےکہ مدھو اس کو ذرا بھی گھاس نہیں ڈالتی ہی۔“جاوید کی دوسری بات سن کر اسےکچھ اطمینان ہوا۔ اس نےایک دو گھنٹےسائبر کیفےمیں گذارے۔اس دوران کبھی چور نظروں سےکبھی دیدہ دلیری سےمدھو کی طرف دیکھتا رہا۔ کبھی مدھو کےپاس جاکر اس کا قریب سےجائزہ لیتا رہا۔ جاتےوقت وہ دھیرےسےبولا”سویرےمیں تمہارےآلو کےپراٹھےتیار رکھوں گا۔ناشتےمیں میرےآلو کےپراٹھےکھائےبنا کالج نہیں جانا۔ “اس کےبات کامدھو نےکوئی جواب نہیں دیا۔ صرف دھیرےسےمسکرائی ۔وہ اس کو مدھو کی ہاں سمجھ گیا۔ اس رات وہ بہت خواش تھا۔ اس نےمدھو کو نہ صرف کافی قریب سےدیکھا تھا بلکہ بہت دیر تک باتیں بھی تھیں اور کل مدھو اس کےگھر ناشتےپر آنےوالی تھی ۔اس سےبڑھ کر خوشی کی بات اور کیا ہوسکتی تھی ۔لیکن ایک اور بات تھی جو کیل کی طرح اس کےسینےمیں چبھ رہی تھی۔ مہندر پٹیل ....مدھو کا عاشق گاو
¿ں کا رئیس ہی۔ بڑےباپ کا بگڑا ہوا بیٹا ہی، سیاسی لیڈر ہی،غنڈہ ہے، بدمعاش ہےاور مدھو پر عاشق ہی۔ وہ اپنا موازنہ مہندرسےکرنےلگا۔ تو اسےمایوسی ہوتی آخر اس نےسر جھٹک دیا اور سوگیا ۔ سویرےاسےجلد اٹھنا تھا ۔مدھو کےلیےپراٹھےبنانےتھی۔آلو کےپراٹھےاس نےآج تک نہیں بنائےتھے۔لیکن پراٹھےبنتےدیکھےتھی۔ جگیر کےہوٹل میں وہ چھوٹےموٹےکام کرتا تھا اس لیےکھانا بنانا سیکھ گیا تھا۔ سویرےوہ جلد جاگ گیا۔ رات میں ہی اس نےآلو چھیل رکھےتھی۔ آلو کو بھوننےکےلیےاس سےکڑھائی میں ڈال دیا۔ اور پراٹھےبنانےمیں لگ گیا۔اسی دوران وہ اچھی طرح تیار بھی ہوگیا تھا ۔نہا دھوکر اس نےخوشبو اپنےجسم پر ملی اور سب سےاچھا ڈریس پہنا۔ وہ آج دلیر مہدی کی سےکم دکھائی نہیں دینا چاہیی۔ آلو کےپراٹھے،چائے،اچار،چٹنی ،پاپڑ ،ناشتےمیں پتہ نہیں اس نےکیا کیا چیزیں تیار کریں۔ اب صرف مدھو کی آمد کاانتظار تھا۔ وہ گیلری میں کھڑا ہوکر مدھو کا انتظار کرنےلگا۔ مدھو وقت سےپہلےآگئی ۔اس نےمدھو کو اوپر آنےکا اشارہ کیا تو وہ اوپر آگئی۔ اس نےمدھو کےسامنےایک بڑی سی رکابی میں سارا ناشتہ پروس دیا۔ ”واو
¿ ....اتنےپراٹھے....اتنےپراٹھےتو میں تین دنوں تک کھاسکتی ہوں۔“ ”تین دنوں کےلیےنہیں یہ صرف آج کےلیےہے۔“ اس نےمدھو سےکہا تو مدھو مزےلیکر آلو کےپراٹھےکھانےلگی ۔مدھو پراٹھےکھاتی جاتی اور ان کی لذت اور بنانےوالےکی تعریف کرتی جاتی۔ وہ اپنےبنائےآلو کےپراٹھوں کی تعریف سن کر خوشی سےپھولا نہیں سما رہا تھا۔ مدھو نےصرف دوپراٹھےکھائےاور چار پراٹھےاپنےٹفن میں ڈال دیی۔ ”ٹھیک ہے۔اپنی سہیلیوں کو اصلی پنجاب کےیہ پراٹھےکھلاو
¿ں گی اور ان سےکہوں گی یہ ایک اصلی پنجابی نےبنائےہیں۔ “ اسی دوران بس آگئی تو مدھو جلد ی سےاتر کر بس میں جا بیٹھی۔ جاتےہوئےوہ اس سےکہہ گئی....”جمی جی ....آج آپ نےپنجاب کےپراٹھےناشتہ میں کھلائے۔کل میں آپ کو ناشتےمیں گجرات کا کھمن کھلاو
¿ں گی۔ ناشتہ مت بنائےگا میں ناشتہ لےکر آو
¿ں گی۔ “ وہ اس تصور سےجھوم اٹھا کےکل بھی مدھو اس کےگھر آئےگی۔ آج کا دن اس کی زندگی کا یادگار دن تھا۔ اسےاتنی خوشی مل تھی کہ وہ اس خوشی کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔اس کا پیار اس کی مدھو اس کےگھر آئی تھی۔ اس بڑھ کر خوشی اس سےاور کیا ہوسکتی ہی۔ کہا تو وہ سوچتا تھا کہ وہ تو کبھی مدھو سےبات بھی نہیں کرپائےگا ۔صرف دور سےزادگی بھر دیکھتا رہےگا۔ اور صرف دو دنوں میں فاصلےاتنےسمٹ گئےہےکہ وہ تو ان کےبارےمیں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اسےلگا اب منزل دور نہیں ۔اسنےمدھو کےسامنےاپنےپیار کا اظہار نہیں کیا ہےلیکن اب پیار کا اظہار کوئی مشکل کام نہیں ہی۔اب وہ تنہائی سےمدھو کےسامنےاپنےپیار کا اظہار کرسکتا ہی۔ اظہار کےکئی ذرائع ہی۔ اب وہ مدھو سےبنا جھجک کھل کر بات کرسکتا ہی۔ اسکےپاس مدھو کا ٹیلی فون نمبر ہی۔ مدھو کےپاس اس کا ٹیلی فون نمبر ہی۔ اسےمدھو کےکالج کا نام اور پتہ بھی معلوم ہےوہ چاہےتو مدھو سےاس کےکالج میں بھی جاکر مل سکتا ہی۔ اور کل تو مدھو اس کےگھر دوبارہ آرہی ہی۔ اس کےلیےناشتہ لےکر ۔ وہ خوشی سےجھوم رہا تھا۔لیکن ایک چہرہ جو بار بار اس کی آنکھوں کےسامنےگھوم جاتا تھا مہندر پٹیل کا چہرہ ۔ مہندر پٹیل کا چہرہ اپنی آنکھوں کےسامنےدیکھ کر وہ سہم جاتا تھا۔ اور آنکھوں کےسامنےاندھیرا سا چھا نےلگتا تھا۔ او اس اندھیرےمیں اسےمدھو کی صورت ڈوبتی محسوس ہوتی تھی۔


Contact:-
M.Mubin
http://adabnama.tripod.com
Adab Nama
303-Classic Plaza,Teen Batti
BHIWANDI-421 302
Dist.Thane ( Maharashtra,India)
Email:-adabnama@yahoo.com
mmubin123@yahoo.com
Mobile:-09372436628
Phone:-(02522)256477










 
Copyright (c) 2010 Allao Urdu Novel by M.Mubin Par 4 and Powered by Blogger.